اٹھ جاؤ کہ سورج سوا نیزے پر ھے ۔

اج چھ دسمبر 1992 کے دن کو یاد کرتے ہوئے بابری مسجد کی شہادت کا واقع ذہن میں تازہ ہو جاتا ھے اور یہ احساس ہوتا ھے کہ قانونی طور سے ملک کی عدلیہ ، سرکار اور ہندو وادی تنظیم آر آر ایس وغیرہ نے رام مندر کی تعمیر کے لئے غیر منصفانہ کیا کیا کردار ادا کیا اور کس طرح مسلمانوں کی قیادت کو اپنے دام فریب میں اور قانونی بالادستی کے پر فریب جال میں پھنسا کر اپنا مقصد پورا کیا اور اب حال یہ ھے کہ ایک بابری مسجد کیا اب مسلم امہ اپنے پورے وجود کی بقا کے لئے قانونی طور سے برسر پیکار ہونے کے با وجود بھی کوئی مستقل اور امن کا راستہ تلاش نہیں کر پا رہی ھے ۔ آج اُنکے نشانے پر مسلمانوں کی تمام مسجدیں، مدارس، اوقاف, مسلموں کے گھر کاروبار ، مسلمانوں کا ایمان و یقین اور تمام مسلمانوں سے وابستہ چیزیں یہانتک کی اُنکی جان و مال، عزت عفت سب ہے معنی ہو گئی ھے کیونکہ ہندووتا اور بھارت ماتا کی بڑھتی بالا دستی پوری کرنے، ہندو راشٹر بنانے کے عزائم کے سامنے سب قانونی بالا دستی ہیچ ہو گئی ھے اس لئے تمام اقلیتوں کو تہہ تیغ کرنے کیلئے ہندو نوجوانوں کو جنونی بنایا جا رہا ھے اور اُنکے دل و دماغ میں اسلام اور دوسرے مذاھب کے خلاف زہر گھولا جا رہا ھے ۔ منافرت کا یہ کھیل ہے روک ٹوک جّاری ھے اور گودی میڈیا کے ذریعے اِسکی پوری نشر اشاعت اور تائید کی جا رہی ھے اور ماحول کو مزید کشیدہ کیا جا رہا ھے ۔ ان حالات میں ہمارے سامنے کیا کیا چیلنجز ہیں انکو سمجھنا ضروری ھے ۔

انکی پہلی کوشش یہ تھی کہ عالمی سطح پر اسلام کو بدنام کرمسلمانوں میں اسلامی بیزاری پیدا کی جائے اور ان نام نہاد مسلمانوں کو اسلام مخالف مہم میں شامل کر اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کیا جائے اسکے لیے میڈیا کا بھر پور سہارا لیا گیا اور اسلام کو نفرتی مذہب اور مسلمانوں کو جہادی باور کرایا گیا تاکہ اس جواز سے مسلم قوم کا پورا استحصال کیا جا سکے۔ دوسرا حربہ یہ استعمال کیا گیا کہ مسلمانوں کو دین اسلام کی باریکیوں میں الجھایا گیا تاکہ مسلمان آپس کے کالفشار کا شکار ہو جائیں۔ اسکے لیے قادیانئیت، معودیت، مہدودیت، اہل قرآن، پرویزیت، غامدیت، مرزائیت، شکیلیت اور موجودہ دین ابراہیمی ہاؤس کو پسے پشت خوب ترقی اور ترویج دیگر سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کیسے لوٹا جائے اور گھر واپسی کے ذریعے کیسے ہندوں کی صفوں میں شامل کیا جا سکے۔ تیسرا نکتہ جو قانون سازی سے تیار کیا گیا کہ کیسے مسلمانوں کو آئین میں دفعہ 25، 26 کے استعمال سے روکا جائے اسکے لیے مذہبی آزادی قانون بنایا گیا اور اسکے ذریعے مذہبی نشرو اشاعت اور تبدیلی مذہب کو جرم بنا دیا گیا اور ہندو مذہب کو اس قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا تاکہ ہندو مذھب کے گھر واپسی پروگرام كا قانونی طور سے پورا تحفظ ہو سکے۔ چوتھی کوشش مسلمانوں کے شرعی قانون کو ختم کرکے ایک نئے قانون یکساں سول کوڈ کا ملک بھر میں نفاذ و مسلمانوں کو شریعت کے خلاف ورزی کے ذریع اُنکے ایمان کو ختم کرتا مقصود ھے۔ یہ ساری مہم مسلمانوں کو ایمان و یقین سے ہٹانے کا ایک حصہ ھے جو پوری شدت کے ساتھ سر انجام دیا جا رہا ھے ۔

اس کے بعد مسلمانوں کو کیسے نمبر دو کا شہری بنایا جائے اسکے لئے سی اے اے قانون، ان پی آر، این آر سی جیسے قانون بناکر اور مسلمانوں کے ذریعے ملک کی مردم شُماری اور ڈیموگرافی بدلنے جیسے الزامات لگاکر مسلم بستیوں کو قانونی طور سے ہٹانے، مسجد مدرسوں کو غیر قانونی بتاکر منہدم کرنّے، مسلم اوقاف میں در اندازی کرنے کے لئے تا حال قانون سازی کی بھرپور کوشش کی جارہی رہی ھے جسکو نام نہاد طبقہ بھی پورا تعاون دے رہا ھے جیسے کہ پہلے تین طلاق اور کشمیر کی دفعہ 370 وغیرہ ہٹانے میں دے چکا ھے ۔

مسلم قیادت متواتر ملکی آئین اور سیکولرزم کی دہائی دے رہی ھے تو ایسے میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو کیسے تہہ تیغ کیا جائے اسکا جواز پڑوسی ملک بنگلادیش سے ٹی وی چینل پر بیٹھکر اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ھے اور اسکے لئےمسلمانوں کا یہ نامنہاد طبقہ پیش پیش ھے۔

کیا ابھی بھی ہمارے لئے وقت نہیں آیا کہ ہم امت مسلمہ کی سلامتی کے لئے کوئی لاء عمل طے کریں اور قائدانہ کردار ادا کریں ۔ ہماری قیادت اور دانشورانِ ملت کیا یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ کل کا سورج ہمارے لئے نئی صبح لیکر آئےگا ۔ ہر نئی صبح سخت اورنیا چیلنج ہمارے سامنے ہوتا ھے کیونکہ ہم اپنے نبی کے ارشادات کے خلاف اُمید کرتے ہیں آپ نے فرمایا تھا کہ اگلا دور گزرے دور سے سخت ہوگا۔

خیر اندیش
خورشید احمد صدیقی
37 پریتی انکلیو ماجرا دہرادون

Share
Now